ہفتہ، 29 جولائی، 2023

یوم عاشورا کو لوگ دعائے عاشورا اس گمان کے ساتھ پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں،کہ اس کے پڑھنے سے سال بھر کی زندگی کا بیمہ ہو جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟

محافظ مسلکِ اعلیٰ حضرت

یوم عاشورا کو لوگ دعائے عاشورا اس گمان کے ساتھ  پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں،کہ اس کے پڑھنے سے سال بھر کی زندگی کا بیمہ ہو جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
یوم عاشورا کو لوگ دعائے عاشورا اس گمان کے ساتھ پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں،کہ اس کے پڑھنے سے سال بھر کی زندگی کا بیمہ ہو جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟



 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ یوم عاشورا کو لوگ دعائے عاشورا اس گمان کے ساتھ  پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں،کہ اس کے پڑھنے سے سال بھر کی زندگی کا بیمہ ہو جاتا ہے، اور اس کو موت نہیں آئے گی اگر آجائے تو عجیب اتفاق ہے،کیا یہ کسی معتبر کتاب سے ثابت ہے مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں_


بسم اللّٰه الرحٰمن الرحيم

الجواب بعون اللّٰه تعالى:

یوم عاشورا (10محرم الحرام ) والے دن طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب کے درمیان  اس دعا کو خود پڑھ لے یا کسی سے پڑھوا کر سن لے تو اس سال ان شاءالله عزوجل اس کو موت نہیں آئے گی اور عجیب اتفاق ہے کہ اگر اس سال مرنا ہو تو اس کو یہ دعا پڑھنے یا سننے کی توفیق ہی نہیں ملے گی۔"

(مجموعہ وظائف صفحہ 106 مطبوعہ مکتبہ رضویہ)

نوٹ: مگر امام زین العابدین  رضی اللّٰه تعالٰی عنه یہ فرمان جس کتاب میں موجود ہے اس میں حوالہ موجود نہیں، اور نہ وہ خود معتبر کتاب ہے لہذا اہلِ علم حضرات نے اگر کہیں امام زین العابدین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا یہ  فرمان پڑھا ہو تو ضرور آگاہ کیجیے گا۔


مجموعہ اعمال رضا حصہ دوم صفہ ۱۱۲. پر بھی ایسا ہی لکھا ہے مگر اس کتاب میں بھی کسی معتبر کتاب سے حوالہ نہیں ہے اس لیے اس پر بھی  اعتبار نہیں کیا جا سکتا_

لہذا اس طرح کی غیر معتبر روایت سے ایسے مسائل کا اثبات جن کا تعلق عقائد سے ہو قطعاً ان کا ثبوت نہیں ہو سکتا، جب تک کے اس کے اثبات پر کوئ نص قعطی منطبق نہ ہو_

جو لوگ پڑھتے ہیں ان پر لازم و ضروری ہے کہ وہ ہر بات کو آنکھ بند کرکے تسلیم نہ کیا کریں بلکہ خود غور کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو غور کرلیں ورنہ اپنی جماعت کسی مستند ذی علم عالم دین سے دریافت کر لیا کریں،اس دعا کے اندر کچھ باتیں اسانید ضعیف پر مشتمل ہیں،لہذا اس عقیدے کے ساتھ پڑھنا صحیح نہیں ہےنیز یہ روایت قرآن کریم کی آیات سے ٹکراتی ہے مثلا الله تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:"وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ"(سورۂ اعراف،آہت:34)

 ترجمۂ کنز الایمان

اور ہر گروہ کا ایک وعدہ ہے تو جب ان کا وعدہ آئے گا ایک گھڑی نہ پیچھے ہو نہ آگے۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:"اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَاۚ-فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ"(سورۂ زمر،آیت:42)

 ترجمۂ کنز الایمان

اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں اُنہیں ان کے سوتے میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیا اُسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعادِ مقرر تک چھوڑ دیتا ہے بیشک اِس میں ضرور نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لیے۔

لہذا مذکورہ بالا آیت قرآنی سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہو گئ کہ جب انسان وقت مقررہ آجائے گا تو موت اس کو اپنی آغوش میں لے لیگی،ہاں جو شرح عقائد میں مقتول کی بحث میں ذکر ہے اگر اس قبیل سے تو وہ الگ مسئلہ ہے_اور کمزور ایمان والے شخص کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آ گیا(دعا سنی اور چند روز کے بعد انتقال ہو گیا)تو ایسے امور کو انجام دیدےگا جو شرعاً ناجائز و حرام ہوں گے،العیاذ بالله کفری باتیں بھی کر دیتے ہیں،اس لیے بیان کرنے سے پہلے اس کے سارے پہلوؤں پر نظر عمیق کر لینا چاہیے_

هذا ما ظهر لی والعلم عند ربي

*كتبــــــــــــــــــــــه :✍️✍️ محمد نازش رضا خان القادري النظامي المتخصص في الفقه و الإفتاء بجامعة حضرت نظام الدين أولياء،ذاكر نغر،نيو دلهي.*

 🗓️ ١٠محرم ١٤٤٥ھ بمطابق ٢٩جولائ٢٠٢٣ع

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only